لاہور(میپ نیوز) پنجاب حکومت نے اپنے تیسرے سال کی ابتداء میں ہی آئی جی پولیس تبدیل کرنے کی ڈبل ہیٹرک مکمل کرلی ساتھ ہی پنجاب پولیس کی کمانڈ سنبھالنے والے چھٹے آئی جی انعام غنی کی تعیناتی تنازعات کا شکار ہوگئی۔تفصیل کے مطابق جونیئر افسر کو آئی جی پنجاب تعینات کرکے پنجاب حکومت نے نئی مثال قائم کردی جس کے باعث پنجاب میں انعام غنی سے سینئر ایڈیشنل آئی جیز غیریقینی صورتحال کا شکار ہوگئے جبکہ ایک افسر نے ان کے ماتحت کام کرنے سے انکار کر دیا۔تفصیل کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے سی سی پی او لاہور شیخ محمد عمر اور آئی جی ڈاکٹر شعیب دستگیر کی سرد جنگ کا ڈراپ سین آئی جی کی تبدیلی پر ہوگیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پنجاب کے چیف سیکریٹری جواد رفیق ملک نے گزشتہ شب ڈاکٹر شعیب دستگیر سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی اور انہیں اعلی حکومتی شخصیات کا پیغام دیا جس پر ڈاکٹر شعیب دستگیر نے چیف سیکریٹری پنجاب کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا جب میری مرضی سے وسیم سیال کو سی سی سی پی او تعینات نہیں کیا جاسکتا تو پھر مجھے اس پولیس فورس کی کمانڈ کرنے کا کوئی حق نہیں میں سرنڈر کر دو گا جس پر انھوں نے خود اپنی تبدیلی کا کہا۔حکومتی ذرائع کے مطابق چین آف کمانڈ کے حوالے سے ڈاکٹر شعیب دستگیر اور صوبے کی ایک اعلی شخصیت کے درمیان سخت جملوں کا بھی تبادلہ ہوا جس کے بعد شعیب دستگیر کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ قبل ازیں بھی پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے دو سال کے دوران ڈاکٹر کلیم امام، محمد طاہر، امجد جاوید سلیمی، کیپٹن (ر) عارف نواز خان بھی حکومت اور پولیس کی مبینہ سرد جنگ کا شکار ہوئے۔
