اسلام آباد (میپ نیوز) جائیداد کے تنازعہ نے جواں سالہ لڑکی سے والدین اور بہن بھائیوں کی خوشیاں چھین لیں۔ یہ واقعہ ہے بلوچستان کی رہائشی خاتون نایاب عمرانی کا۔ انصاف کے حصول کی قانونی جنگ لڑنے والی بلوچستان کی دختر نایاب عمرانی کے والد نے جب تیسری شادی کی تو جائیداد کے تنازعے کی سبب سوتیلے بہن بھائی اُسکی جان کے دشمن بن گئے۔نایاب عمرانی نے میپ نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا جائیداد کے تنازعہ پر پہلے سوتیلی ماں اور بھائیوں نے والدہ کو زہر دیکر مارا، بڑے بھائی کو نشہ اور چیزیں پلا کرذہنی معذور بنایا گیا، وکیل بھائی وقاص عمرانی کی بیوی پر کاروکاری کا الزام لگا کر قتل کیا گیا،جب انصاف کے حصول کیلئے عدالت کی دہلیز پہ دستک دی گئی تو آنکھوں کے سامنے قتل کردیا گیا۔ سائلہ کا کہنا ہے کہ ہم نے قانونی جنگ جاری رکھتے ہوئے جب سابق وزیر اعلیٰ بلوچستا ن ثناء اللہ کو درخواست دی تو ڈپٹی کمشنر نصیر آباد اور کمشنر جیکب آباد نے تنازعے کے حل تک جائیداد کو قبضے میں لے لیا، دو ہزار سولہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی اعجاز جاکھرانی کے کہنے پر جرگہ میں صلح کرائی گئی، جرگہ نے طے کیا کہ صنم عمرانی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات واپس لیں جبکہ سوتیلے بھائی ہمارے گھر کی اخراجات اٹھائیں گے، جب جرگہ کے فیصلے کے بعد ہم درخواستیں واپس لیں تو سوتیلے بھائی فیصلے سے مکر گئے۔ سائلہ نے مزید کہا سوتیلے بھائی کا جرگے کے فیصلے سے مکرنے کے سبب بڑی بہن صنم عمرانی نے وقار عمرانی کے قتل اور جائیداد پر قبضہ کے مقدمات دوبارہ کھول دیئے، جوں ہی مقدمات کھلے پہلے بہن صنم عمرانی کو دھمکیاں دی گئیں اور پھر دروازے پہ گولیاں مار کر بہن کو قتل کردیا گیا، دو ہزار اٹھارہ میں سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سادہ کاغذ پر لکھی گئی درخواست پر ازخود نوٹس لیا، بلوچستان اور سندھ کے آئی جی پولیس سے جواب طلب کیا گیا اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا گیا کہ جائیداد کو بیچنے کیلئے کمیشن بنا کر جائیداد بیچ دی جائے، یہ عدالتی احکامات بھی دیے گئے جائیداد کے تنازعے میں قتل کیے گئے بے گناہ ماں، بہن، بھابھی اور بھائی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ ظلم کے اندھیرے اُس وقت چھانے لگے جب میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈی سی نصیر آباد اور کمشنر جیکب آباد نے کہا ازخود نوٹس ختم ہوچکا ہے، مقدمہ یہاں آکر لڑیں۔ انصاف کے حصول کیلئے سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کو خط بھی لکھا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو دوبارہ درخواست دی تو جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل تین رکنی بنچ بنایا گیا لیکن بعد ازاں جسٹس یحییٰ آفریدی نے زاتی وجوہات کے سبب مقدمہ سننے سے معذرت کر لی۔ پیاروں کو کھونے اور جان کی دھمکیوں کے باوجود بلوچستان کی دختر نایاب عمرانی کی قانونی جنگ جاری ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت انصاف کرے گی۔(ذیشان سید)
